بلاگ

بچوں کے ساتھ زيادتی کے اسباب اور سدباب!

سایکولوجسٹ اریبہ سرور بہاولپور

بچوں کے ساتھ زيادتی کیا ہے؟
کسی بھی بچے کے ساتھ جسمانی جنسی جذباتی اور غفلت برتنا زيادتی کے زمرے میں آتا ہے۔جو کے والدین سکول آرگنائزیشن یا کسی بھی انسان کی طرف سے کی جا سکتی ہے ۔جس کی وجہ سے خطر ناک حد تک بچوں میں کامیاں پیدا ہو سکتی ہے ۔

چار اقسام کی زيادتی ہوتی ہے:
1- جسمانی زيادتی
2- جنسی زيادتی
3- جذباتی زيادتی
4- غفلت برتنا

جسمانی زيادتی:
جسمانی زيادتی میں جانتے بوچھتے ہوےُ بچوں کو مارنا دھکا دینا جس کی وجہ سے زخمی ہونے کے امکانات ہوں ۔یا پھر بد ترین صورتحال تک بچوں کو پہچانا ۔زندگی کو خطرہ لاحق ہو آتا ہے ۔

جنسی زيادتی:
پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زيادتی کے بہت سے واقعات دیکھے اور سنے جاتے ہیں ۔یہ ایک بہت بڑا جرم ہے ۔بچوں کو غلط مقصد سے چھونا یا کسی بھی قسم کی غلط چیزیں انھیں دیکھنا جنسی زيادتی میں آتا ہے ۔

جذباتی زيادتی:
جذباتی زيادتی بھی ایک طرح سے بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔آپ بچوں کی ہر ضرورت پوری کرے مگر انھیں پیار توجو نہ دیں ۔انھیں نظر انداز کرے ۔اپنی زندگی میں مصروف رہیں۔ان پر نظر نہ رکھیں۔بچوں کو خود سے الگ تھلگ رکھیں ۔جذباتی زيادتی کہلاتی ہے ۔

طبی زيادتی:
بچوں کو والدین کی سب سے زیادہ ضرورت تب پڑھتی جب وه بیمار ہوتے ہیں ۔اور ایسے وقت میں غفلت برتنا .انکی اصل بیماری کو نظر انداز کرنا انکا سہی علاج نہ کروانا آتا ہے ۔

غفلت برتنا:
بچوں کی تربیت کے دوران انکی معلومات حاصل نہ کرنا غفلت برتنا بچوں کے ساتھ زيادتی کے زمرے میں آتا ہے جس میں کھانے پینے پیار محبت تعلیم تربیت طبی امداد دینے میں غفلت برتنا آتا ہے ۔

اب سوال یہ آتا ہے کہ کون لوگ ہیں جو یہ سب کرتے ہیں؟
جنسی اور جسمانی زيادتی کرنے والے افراد وه ہوتے ہیں جو بچوں سے جنسی رغبت رکھتے ہیں۔کہ یہ افراد عادی مجرم جنسی طور پر فریسٹیشن کا شکار ہوتے ہیں ۔یا پھر ذہنی مریض ہوتے ہیں ۔بچوں کے ساتھ زيادتی کرنے والے افراد وه بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ بچپن میں ایسا کوئی حادثہ ہو سکتا ہے وه بچپن میں ہونے والے زيادتی کا بدلہ لینے کے لیے دوسرے بچوں کے ساتھ یہ سب کرتے تھے۔انھیں تسکین حاصل ہوتی تھی ۔بہت سی معلومات کے تحت بچوں کے ساتھ زيادتی کرنے والے قریبی رشتے دارمحلہ دار استاد ہو سکتے ہیں ۔

متاثرہ بچوں کی علامات:
جس بچے کے ساتھ زيادتی ہوئی ہو وه عام بچوں کی نسبت شرمندہ افسردہ اور ذہنی اور ۔جسمانی طور پر الجھاو کا شکار رہیں گے ۔
متاثرہ بچے خوا وه لڑکا ہو یا لڑکی اس بارے میں کسی بھی انسان سے بات کرنے میں خوف محسوس کریں گا۔
خاص طور پر تب جب زيادتی کرنے والے والدین رشتے دار محلہ دار استاد میں سے کوئی ہو ۔
بچوں کا باہر جاکر کھیلنا روزمرہ کی سرگرمیاں چھوڑ دینا۔
رویے میں تبدیلی آجانا مثلا ہر بات پر غصہ کرنا چڑچڑاپن آجانا اسکول کی کارکردگی پڑھائی میں دلچسپی نہ لینا۔
اضطراب اور بے چنی کا شکار رہے ڈرتا رہے ۔
اسکول سے غیر حاضر رہنا شروع کر دے ۔
خود کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچائیں یا خود کشی کی کوشش کرے ۔

خدا نخواستہ کچھ بھی ایسا محسوس کریں تو تحمل سے اپنے بچوں سے بات کریں انکی بات کو سنے سمجھے۔ ان کے اندر اتنا اعتماد پیدا کرے کے وه اپ سے بات کرنے سے ڈرے مت.اپنے بچوں کو اچھا برا سمجھاۓ. تاکہ ایسے لوگوں کو پکڑ کر ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے ۔

Muhammad Asad

Share
Published by
Muhammad Asad