سکون قلب

از قلم: ثناء ریاض (گوجرانوالہ)

دنیا کا ہر انسان سکون کا متلاشی ہے۔ اس سکون کو حاصل کرنے کے لیے دن رات محنت میں لگا ہوا ہے۔ اور اسی کے اوپر وہ اپنی کامیابی اور ناکامی کا مدار سمجھتا ہے۔ لیکن غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ جن اسباب سکون کو انسان حاصل کرنا چاہتا ہے ان میں تو سکون ہے ہی نہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ اگر مُجھے مال و دولت مل گیا تو مجھے سکون مل جائے گا۔ اگر مجھے اچھی بیوی مل جائے گی تو سکون مل جائے گا۔ اگر مجھے زمین کا ٹکڑا مل جائے گا تو سکون مل جائے گا۔ اگر حکومت کے اختیارات مل گے تو سکون مل جاۓ گا۔ اس لیے ہر شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے ان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ مگر ان سب کے باوجود انسانوں کو دلی سکون نصیب نہیں ہے۔ کیونکہ جن چیزوں میں انسان سکون تلاش کر رہے ہیں ان میں سکون ہے ہی نہیں۔

قرآن مجید نے بتا دیا ہے کہ

    ” جان لو کہ اللہ کی یاد کے ساتھ دلوں کا سکون وابسطہ ہے”

جو انسان اللہ کو یاد کرے گا اللہ اُس کے دل میں سکون پیدا فرما دے گا۔

اللہ کے فضل کا ایک نام سکون قلب ہے۔ جب اللہ کا فضل نازل ہوتا ہے تو آپ کو سکون قلب محسوس ہوتا ہے۔ جس نے زندگی خوشحالی میں گزار دی اُس کو بھی مل گیا سکون قلب اور جس نے زندگی اللہ کے نام میں گزاری اُسے بھی سکون قلب مل گیا۔ فاقوں میں بھی وہی ہے اور لنگر خانوں میں بھی وہی ہے۔ سکون قلب کسی فارمولے کا نام نہیں ہے۔ یہ کھا لو تو سکون قلب مل جائے گا۔ کسی کے سکون قلب پر بات نہ کرو تو سکون قلب مل جائے گا۔ خوش رہا کرو سکون قلب مل جائے گا۔پیسوں سے محبت نہ کیا کرو سکون قلب مل جائے گا۔خواہشات کو زد کے حد تک نہ اپناؤ سکون قلب مل جائے گا۔جب فیصلہ اُس کی منظوری پر ہے تو پھر نا منظور بھی منظور ہے۔ نا منظور بھی اُسی نے کیا ہے نا تو نا منظور خواہش کا بھی اتنا ہی احترام کرو جتنا منظور کا کرتے ہو۔ مقصد یہ ہے کہ آپ کا اپنے رب کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے چاہے ستم کا ہو یا کرم کا، دونوں ہی کرم ہیں۔

انسان کہتا ہے کہ یا اللہ! میرا یہ کام کر دے تو میں مطمئین ہو جاؤں گا۔ یہ آپ کا کام ہے اور انسان کے کسی بھی کام کے پورا ہونے سے سکون قلب نہیں ملتا۔اللہ کی طرف سے جو ہو رہا ہے اگر آپ اُس كو پسند کر کے چلنا شروع کر دیں تو سکون قلب حاصل ہو جاۓ گا۔ کیوں کہ انسانوں کو صرف دیوار کے ایک سائیڈ کا علم ہوتا ہے۔ اول تو ایک کا بھی صحیح علم نہیں ہوتا۔ مطلب ہمیں بھوک لگی ہو تو بس کھانے کا پتا ہے۔ اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کھانا کن ذرائع سے آ رہا ہے، کون انسان پکا رہے ہیں، اس کی تاثیر کیا ہے، کھانا کن کن لوگوں کو مجھ سے زیادہ ضروری ہے اور ان کو ملنا، یہ سب چیزیں سمجھ نہ آئیں تو بھی سکون قلب نہیں مل سکتا۔

انسان کوئی ایک ایسی خواہش اپنے اندر تلاش کر لے جو اللہ پوری فرما دے تو اس کے بعد ہر خواہش حرام ہو جائے تو اس کو ہم سکون قلب کہہ سکتے ہیں۔جب تک وہ خواہش دریافت نہیں کر لیتے، جتنی مرضی خواہشات پوری کرتے رہیں یا وہ خواہشات ٹوٹتی رہیں سکون قلب نہیں مل سکتا۔ سکون قلب یہ ہے کہ ایک واحد خواہش دریافت کرنا کہ باقی ساری خواہشات اُس کے ہاں قربان ہو جائیں۔ اگر وہ خواہش دریافت کر لی اور وہ پوری بھی ہو

جا ئے تو سکون قلب حاصل ہو جاتا ہے۔ سکون قب اپنے اندر پھیلاؤ کی خواہش کو سمیٹنے کا نام ہے۔

ہم بعض اوقات نیکی کے نام پر بھی بے سکون ہو جاتے ہیں۔ جیسے ایک شخص نیکی کے لئے مسجد بنا رہا ہے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کے لیے اینٹیں درکار ہیں، ریت درکار ہے اور بہت ساری چیزیں بھی درکار ہیں تو وہ یوں پریشان ہوجاتا ہے۔ مسجد اللہ کی ہے انتظام بھی وہی کرے گا۔ تم اپنی ہستی کے اندر رہ کر جتنا کر سکتے ہو کرو۔ ہستی سے باہر جاؤ گے تو اپنے آپ پر ہی بوجھ ڈالو گے۔ جب کہ اللہ نے کہا ہے کہ میں کسی انسان پر اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ آپ بس نماز ہی پڑھ لو اگر بنانے کی ہمت نہیں ہے تو۔ زیادہ قیمتی کپڑے نہیں ہیں تو سادہ کپڑوں میں ہی پڑھ لو۔ انسان کو جب بھی مارتی ہیں اُس کی خواہشات ہی مارتی ہیں۔

سکون یہ ہے کہ آپ پہلے لوگوں کی کیفیت کو پہچانیں پھر اپنی کیفیت کو پہچانیں۔ ایسی خواہش پیدا کر لی جائے جس کا تعلق دنیا سے ہو، سکون نہیں ملتا۔ آخرت سے خواہشیں کا تعلق ہو، پوری ہو گئی تو سکون ہے۔

خواہش بذات خود کعبہ ہے۔ کیوں کہ نیکی کی خواہش پوری ہو یا نہ ہو بذات خود نیکی ہے۔ یہ اللہ رب العزت کے احسانات ہیں کہ نیکی خواہش میں بھی ہو تو نیکی کہلاتی ہے۔ اور بدی خواہش میں ہو تو بدی نہیں کہلاتی۔ بدی جب ہو تب بدی کہلاتی ہے۔ جب تک بدی خواہش میں ہے اُس کی سزا نہیں ہے۔ خواہش ہمیشہ وہی سکون دیتی ہے جس کا تعلق دین سے ہو، عاقبت سے ہو، اللہ سے ہو اور اللہ کے رسول سے ہو۔

دوسروں کا پیسہ گنتے چلے جانے سے سکون نہیں ملتا۔سکون ایک ایسی خواہش کا نام ہے جو اللہ کی راہ پر استعمال ہو۔ پوری ہو تب بھی سکون ہے، نہ پوری ہو تب بھی سکون ہے۔ ہمیشہ اُسی انسان نے سکون دریافت کیا جس نے اللہ کا فضل مان لیا۔

اکثر لوگوں کی بے سکونی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں ملتا ہی نہیں۔ لیکن جب انسان اپنی کسی خوشی کو پورا کرتا ہے تو اللہ کے کرم سے انسان کا دماغ انسان کے وجود کو ایک تحفہ دیتا ہے۔ اور اس انعام کو راحت کہتے ہیں۔ جتنی خوشی انسان کو بڑی خوشی ملنے کے بعد ملتی ہے اتنی ہی خوشی اللہ کے کرم سے چھوٹی چھوٹی خوشیاں پوری کرنے کے بعد ملتی ہے۔ بس یہ ہم انسانوں کا وہم ہوتا ہے کہ مجھے دنیاوی فلاں چیز مل جاۓ تو میں تا حیات خوش رہوں گا۔ جب اُسے وہ منزل ملتی ہے تو چند ہی ایام میں وہ اُس خوشی کا عادی بن جاتا ہے۔ اور پھر کسی اور خواہشں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔ لیکن انسان کا سکون تب برباد ہونا شروع ہوتا ہے جب وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو قربان کر کے بڑی خوشیوں کی فکر میں رہتا ہے۔ جو خوشیاں تم حاصل نہیں کر پاتے ان کو اللہ پر چھوڑ دو۔ لیکن جو حاصل کر سکتے ہو ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ جب تم اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے ساتھ خوش رہنا شروع کر دو گے تو اللہ بڑی بڑی خوشیاں تمہارے قدموں میں لا کے رکھ دے گا۔

  ” بیشک اللہ اپنے شکر گزر بندوں کو پسند کرتا ہے”۔

اللہ کی یاد میں ہی دلوں کا سکون ہے اور کسی چیز میں نہیں ہے، ڈھونڈتے رہو جہاں ڈھونڈ سکتے ہو۔

ہم انسان کن چیزوں سے بنے ہیں؟ جسم سے اور روح سے۔ جسم کہاں سے آیا ہے؟ مٹی سے اور اس کی تمام ضروریات کا بندوبست بھی اللہ نے مٹی سے کیا ہے۔ جو بھی چیز دیکھ لیں مٹی سے ہی پیدا کی گئی ہے۔ اللہ نے ہمیں جو جسم دیا ہے اس کی تمام خوراک کا بندوبست بھی مٹی سے کیا ہے۔ روح کہاں سے آئی ہے؟ آسمان سے اور اس کی خوراک کا بندوبست بھی آسمان سے ہے جو کہ اللہ کا دین ہے۔ اور ذکر کا مطلب صرف اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر نہیں ہے۔ اللہ کا دین ذکر ہے جس سے سکون قلب ملتا ہے اور ہم کیا کرتے ہیں، جسم کو سکون پہنچاتے ہیں۔ گرمی لگ رہی ہے تو اے سی چلا دو سکون میں آ گے۔ بھوک لگ رہی ہے تو کھانا کھا لیا اور پیاس لگ رہی ہے تو پانی پی لیا۔ فزیکل ضروریات ہیں پوری کیں سکون مل گیا۔

جب ہم تکلیف میں ہوتے ہیں تو بنیادی طور پر جسم تکلیف میں نہیں ہوتا، روح بے چین ہو رہی ہوتی ہے۔ اب روح کو فیڈ کرنا ضروری ہے لیکن ہم لوگ کیا کرتے ہیں کہ جاؤ، شاپنگ کر لو یا چلو کہیں باہر کھاتے ہیں۔ ہم روح کو خوش کرنے کے لئے بھی جسم کو ہی سکون پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ روح ابھی تک پیاسی ہے، ابھی تک ٹرپ رہی ہے، وہ اپنے رب سے باتیں کرنا چاہتی ہے۔ اپنے رب سے تعلق پیدا کرنا چاہتی ہے اور اُسے وہ سب نہیں مل رہا۔ ہم اپنے آپ کو سلا رہے ہوتے ہیں۔ کس طرح سلا رہے ہوتے ہیں میو زک سن کے، فلمیں دیکھ کے اور دوستوں کے ساتھ گھوم پھر کر لیکن پھر جب اکیلے ہوتے ہیں تو پھر وہی بے چینی اور بے سکونی۔ اس لیے اکیلے رہنا نہیں چاہتے، ہر وقت چاہتے ہیں کہ دوستوں میں رہیں، کچھ کرتی رہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ روح پیاسی ہے اُسے رب سے تعلق کی ضرورت ہے۔ اللہ سے بات کرنا چاہتی ہے۔ دعا کریں، ذکر کریں، ازکار کریں اور نمازیں پڑھیں، یہ سکون ہے۔ یہ اصل سکون اور چین کی رازداری ہے۔

ہمارے پاس قرآن کی شکل میں نصیحت ہے رب کی طرف سے۔ اور سینوں میں جو روگ ہیں ان کی دوا بھی اس کے قرآن میں پوشیدہ ہے۔ اطمینان تب ملتا ہے جب ہم اپنی زندگی کو اللہ کے احکامات کے مطابق گزرنا شروع کر دیں۔ تو پھر یہ اطمینان سکون قلب بن جاتا ہے۔

قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو فطرت کو بڑا اچھا بیان کرتی ہے۔ تمہارے لیے رشتے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ نکاح اس کے اندر مرد اور عورت کا جسمانی سکون چپھا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ صرف فساد اور پشیمانی ہے۔ تمہارے لیے گھروں کو جائے سکون بنایا ہے ۔ سکون کی جگہ دل ہے۔ خوشی کی جگہ دل ہے۔ غم کہاں ہوتا ہے؟ دل میں۔ کہتے ہیں نا کہ تو نے میرا دل دُکھا دیا۔ تو نے آج میرا دل خوش کر دیا۔ انسان صبح شام سکون کے لئے کوشش کرتا ہے۔ خوشی کے لئے کوشش کرتا ہے۔ خوشی کے لئے جو کوششیں ہوتی ہیں انسان جب ان کوششوں میں کامیاب ہوتا ہے تو خوشی کہاں ہوتی ہے؟ دل میں۔ انسان خوش ہوتا ہے اپنی محبوب چیز کے ملنے سے۔ دل کب خوش ہو گا؟ جب اس کو اُس کی محبوب چیز ملے گی۔ دل کا مسئلہ یہ ہے کہ جب اسے اس کی محبوب چیز حاصل ہوتی ہے تو اس میں پہلے سے زیادہ محبوب چیز کی خواہش پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ پہلی مرتبہ تو یہ اس چیز سے خوش ہو جاتا ہے لیکن پھر اس سے زیادہ مانگتا ہے۔

سکون پیسے سے نہیں ملتا۔ خوبصورت عورتوں کے پہلوں میں بیٹھنے سے نہیں ملتا۔ زندگی بہت قیمتی ہے اور خاص طور پر جوانی۔ اس کو اللہ کے لطف میں گزار دیں، اس س بڑھ کے سکون کہیں نہیں مل سکتا۔ زندگی اللہ کے دین کے لئے بسر کر دیں۔ لیکن مجنو بن کر چوکوں گلیوں میں گزار دیں زندگی اور ڈھونڈتے رہے سکون کی تلاش، ساری زندگی برباد ہو گئی سکون کا ایک ذرہ بھی نہیں ملا۔ سکون باہر سے نہیں ملتا، سکون اندر سے ملتا ہے۔ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے نام لگا دیں پھر دیکھیں زندگی زندگی بن کے سامنے آتی ہے کہ نہیں۔ نہیں تو زندگی سوائے شرمندگی کے اور کچھ نہیں۔ دنیا کی زندگی بھی برباد ہوئی اور آخرت بھی برباد کر دی۔ لیکن اگر اپنی زندگی اللہ کے نام لگا دیں تو پھر یہ زندگی بھی خوشحال اور آخرت کی زندگی بھی خوشحال۔ اگر اس مختصر سی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول کے نام لگا دیں گے تو زندگی گزارنے کا سرور آے گا ورنہ زندگی گزر نہیں رہی کٹ رہی ہے۔

    عمر کاٹی ہے جبل مسلسل کی طرح

   جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

آج ہر بندہ جبل مسلسل کی طرح زندگی کاٹ رہا ہے۔ آج ہر بندہ اس کوشش میں لگا ہے کہ گھر بنا لو، بینک بیلنس بنا لو لیکن سکون کہیں بھی نصیب نہیں ہے۔ اور پھر جب موت آتی ہے تو سب کچھ پڑے کا پڑا رہ جاتا ہے۔ آپ جس طرح کا بھی لباس پہنے عربی پہنے، عجمی پہنے، مشرقی پہنے، مغربی پہنے، پانچ پانچ چھ چھ جیبیں ہوتی ہیں۔ ایک ہی لباس ہے جس میں کوئی جیب نہیں اور وہ کفن ہے۔ اس لیے کہ وہاں کچھ لے کر نہیں جانا یہاں سب کچھ چھوڑ کر جانا ہے۔ اور وہ جن کے لیے انسان محنت کرتا ہے انہیں اب تیرے وجود سے خوف آ نے لگتا ہے۔ جن کے لیے انسان اپنا سکون برباد کر دیتا ہے اب وہ ایک رات بھی نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے اگر سکون چاہتے ہیں تو آخرت کو تھام لیں اور اللہ اور اس کے رسول کے دامن کو پکڑ لیں۔

سکون والی اور کامیابی والی زندگی کا یہی تصور ہے اور محبت رسول یہی سکھاتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے نام پر اپنے آپ کو لگا لیا جائے اور اسی میں دلوں کا سکون پوشیدہ ہے۔

اللہ مجھے اور آپ کو اپنی رحمتوں کے ساے میں رکھیں۔

آمین ثم آمین یارب العالمین

Spread the love

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *